مارکس اور لاحکومیت

فریڈرک اینگل کی موت کے کچھ عرصہ بعد مسٹر ایڈورڈ برنسٹین جو کہ مارکس کے حامی طبقہ کا ایک نمایاں رکن ہے نے اپنے رفقائے کار کو چند قابل ذکر دریافتوں سے حیران کر دیا۔ برنسٹین تاریخ کی مادی تشریح کی درستگی اور مارکس کے اضافی قیمت اور سرمائے کے ارتکاز کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کو منظر عام پر لے آیا۔ وہ جدلیاتی طریقے پر حملے میں اس حد تک گیا کہ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تنقیدی اجتماعیات کی گفتگو ناممکن ہے۔ برنسٹین جو کہ ایک محتاط آدمی تھا اس نے عمررسیدہ اینگل کی موت تک اپنی دریافتوں کا اپنے آپ تک محدود رکھا۔ مارکس کے نظریات کے پجاریوں کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ایسا کیا لیکن یہ محتاط پن بھی اسے محفوظ نہ رکھ سکا اور ہر سمت سے اس پر حملے ہوئے۔ کاٹسکی نے اس کی لادینی کے خلاف ایک کتاب لکھی اور ہنورکانگریس میں بیچارے ایڈورڈ کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ کمزور اور فانی گناہگار ہے اور یہ کہ وہ سائنسی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرے گا۔

اس سب کے ساتھ برنسٹین کچھ نئے انکشافات نہیں لے کر آیا تھا۔ مارکس کے نظریات کی تعلیمات کی بنیادوں کے خلاف جو دلائل وہ لے کر آیا تھا وہ اس وقت بھی موجود تھے جب وہ خود مارکس کی کلیساء کا ایک وفادار مبلغ تھا۔ مذکورہ دلائل  انتشاری ادب سے چوری کیے گئے تھے۔ ان کے بارے میں واحد قابل ذکر بات یہ بھی کہ پہلی بار کسی بہترین نامور سماجی جمہوریت پسند نے ان دلائل کا استعمال کیا تھا۔ کوئی ذی شعور شخص اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ برنسٹین کی تنقید مارکس پسندانہ کیمپ پر ناقابل فراموش تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔ برنسٹین نے کارل مارکس کی روحانی معیشت کی اہم ترین بنیادوں پر حملہ کیا تھا اور یہ حیران کن نہ تھا کہ مارکس حامی نظریات کے سب سے معتبر پجاری مشتعل ہو گئے۔

یہ سب کچھ اتنا سنگین نہ ہوتا لیکن اس وجہ سے کہ یہ اس سے بھی نازک صورتحال کے وسط میں آیا تھا۔ تقریباً ایک صدی تک مارکس کے نظریات کا یہ بیانیہ چلتا رہا کہ مارکس اور اینگل نام نہاد سائنسی سماجیات پسند اور نظریہء مارکس کی سائنسی سماجیات کے درمیان ایک مصنوعی فرق ایجاد کیا گیا۔ ایک ایسا امتیاز جو صرف موخر الذکر کے تصور میں تھا۔ جرمن ممالک میں سماجیاتی ادب پر مارکس کے نظریات کی اجارہ داری تھی جسے ہر سماجی جمہوریت پسند مارکس اور اینگل کی سائنسی دریافتوں کی خالص اور مکمل طورپر اصل پیداوار گردانتے تھے۔

لین یہ مغالطہ بھی جاتا رہا، جدید تاریخی تحقیق نے تمام تر سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رائے قائم کی کہ سائنسی سماجیات کا نظریہ پرانے انگریز اور فرانسیسی ماہرین سماجیات  سے لیا گیا اور یہ کہ مارکس اور اینگل دوسروں کے تصورات کو لینے میں ماہر تھے۔1848کے انقلابات کے بعد یورپ میں ایک خوفناک ردعمل کا آغاز ہوا۔ مقدس اتحاد نے اس سماجی سوچ جس نے فرانس، بیلجیم، انگلستان، جرمنی، سپین اور اٹلی میں شاندار ادبیات پیدا کی تھیں اس کا قلع قمع کرنے کے ارادے سے ہر ملک میں اپنے جال بننا شروع کر دیئے۔ قدامت پسندی کے اس دور میں ادب کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا۔ بہت سے انتہائی اہم ادبی کاموں کو تباہ کر دیا گیا جنہیں مخصوص بڑی عوامی لائبریریوں میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوئیں یا جو وہ کام جو چند غیرسرکاری افراد کے مجموعہ جات میں شامل تھے۔

اس ادبی کام کو صرف انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں دوبارہ دریافت کیا گیا اور آجکل وہ زرخیز تصورات جو اس طبقہ فکر کی قدیم تصانیف میں پائے گئے جو فوریئر اور سینٹ سیمسن کی اتباع کرتے تھے یا کو کندسڈرنٹ، ڈیمسیے، مے اور ان جیسے بہت سے دوسروں کے کاموں کے مقلد تھے وہ باعث تعجب ہیں۔ یہ ہمارا پرانا دوست ڈبلیو شرکیوف تھا جس نے سب سے پہلے ان حقائق کو ایک باقاعدہ نمونے کے طور پر پیش کیا اور اس نے دکھایا کہ مارکس اور اینگلے ان نظریات جن کو عرصہ دراز سے انکی دانشورانہ وراثت کا حصہ سمجھا جا رہا تھا انہوں نے ایجاد نہیں کیے تھے، حتیٰ کہ وہ اس حد گیا کہ اس نے ثابت کیا کہ مارکسسٹوں کے چند مشہور ترین کام مثال کے طور پر اشتراکی منشور درحقیقت مارکس اور اینگل کے فرانسیسی کام کے آزادانہ تراجم ہیں اور شرکیوف کو فتح حاصل ہوئی جب اونتی جو اطالوی جمہوریت پسندوں کا  مرکزی حصہ ہے نے اس اشتراکی منشور کے سلسلے میں اس کے الزامات کی تائید کی، اس کے بعد مصنف کو موقع ملا کہ وہ اشتراکی منشور اور وکٹر کنسڈرنٹ کے جمہوری منشور جوکہ مارکس اور اینگل کے کام کی اشاعت سے پانچ سال قبل سامنے آچکا تھا کا تقابلی موازنہ اخذ کر سکے۔

اشتراکی منشور کو سائنسی سماجیاتی کاموں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے اور اس کے اجزاء تخیل سے اخذ کیے گئے ہیں کیونکہ مارکس نے فوریئر کو ایک تخیلاتی ماہرین سماجیات کے زمرے میں شمار کیا ہے۔

یہ قابل تصور ظالمانہ ترین ستم ظریفی تھی اور یقیناً بمشکل ہی مارکس کے نظریات کی سائنسی وقعت کا ثبوت ہے۔ وکٹر کنسیڈریٹ ان عمدہ ترین سماجی لکھاریوں میں سے ایک تھا جن سے مارکس واقف تھا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے سماجیت پسند میں ہونے سے پہلے اس کا حوالہ دیا تھا۔ 1984ء میں

نے رنشے زیٹنگ اخبار جس کا مدیر Allegeine Zeitung

اعلیٰ تھا پر حملہ کیا اور اس پر اشتراکیت پسندی کی طرف مائل ہونے کا الزام لگایا۔ تب مارکس نے اپنے ایک اداریئے میں اس کا جواب یوں دیا:

"لیروکس، کنسیڈرنٹ اور سب سے پرودھان کی سرایت انگیز کتاب جیسے کاموں پر کسی سطحی انداز میں تنقید نہیں کی جا سکتی اور وہ تنقید شروع کرنے سے پہلے وسیع اور محتاط مطالعے کا تقاضہ کرتے ہیں۔"

مارکس کی دانشورانہ ارتقاء بڑی حد تک فرانسیسی سماجیات سے متاثر تھی بلکہ فرانس کے تمام سماجی لکھاریوں سے اور اس کی سوچ پر ایک سب سے طاقتور اثر پی جے پرودھان کا تھا اور حتیٰ کہ یہ بات واضح ہے کہ پرودھان کی کتاب ملکیت کیا ہے؟ نےمارکس کی قبول سمایات کی طرف رہنمائی کی اور قومی معیشت پر اس کے تنقیدی اعتراضات اور مختلف سماجی رحجانات نے مارکس کے لیے ایک نئی دنیا کھول دی اور مارکس کا ذہن سب سے زیادہ فرانسیسی سماجیت پسند کے پیش کردہ اضافی قیمت کے تصور سے سب سے زیادہ متاثر تھا۔ ہم شاندار "سائنسی دریافت" اضافی قیمت کا اصول جس پر مارکس کے حامی بہت زیادہ فخر کر تے ہیں ان کی ابتداء پرودھان کے کام میں تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ اس کا احسان تھا کہ مارکس نے اس نظریے سے واقف ہوا اور بعد میں اس نے انگلش  ماہرین سماجیات برلے اور تھامپسن کے مطالعے سے اس میں کچھ تبدیلیوں کا اضافہ کیا۔حتیٰ کہ مارکس نے پرودھان کے کام کی بڑی سائنسی اہمیت کو اپنی ایک خاص کتاب جو آج شائع شدہ حالت میں موجود نہیں میں تسلیم کیا۔ وہ پرودھان کے کام "ملکیت کیا ہے؟" کو فرانسیسی پرولتاری کا پہلا سائنسی منشور کہتا ہے۔ مارکسسٹوں نے اس کام کو دوبارہ چھاپا نہ ہی دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ اگرچہ مارکس کے سرکاری نمائندوں نے اپنے سرپرست کی تصانیف کو ہر زبان میں تراجم کرا کے تقسیم کرنے کی ہر کوشش کی۔ اس کتاب کو بھلا دیا گیا ور یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی دوبارہ چھپائی دنیا پر مارکس کے بعد میں آنے والے کاموں اور متوقع ناحکومیت کے نظریوں کے بارے میں تصانیف کی زبردست حماقتوں کو عیاں کرے گی۔

مارکس نہ صرف پرودھان کے معاشی تصورات سےمتاثر تھا بلکہ اس نے عظیم فرانسیسی ماہر سماجیات کے ناحکومیت کے نظریات کے اثر کو بھی محسوس کیا اور اپنے ایک کام اور اسی دور میں وہ ریاست پر اسی طرح حملہ کرتا ہے جس طرح پرودھان نے کیا۔

ان تمام لوگوں کو جنہوں نے بطور ماہر سماجیات مارکس کے ارتقاء کا سنجیدہ مطالعہ کیا ہے انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ پرودھان کا کام "ملکیت کیا ہے؟" ہی تھا جس نے اسے سماجیات کی طرف تبدیل کیا۔ ان لوگوں کے لیے جنہیں اس ارتقاء کی تفصیلات کا درست علم نہیں ہے یا جنہیں مارکس اور اینگل کے ابتدائی سماجیاتی کاموں کا پڑھنے کا موقع نہیں ملا ان کے لیے یہ دعویٰ غیر حقیقی اور غیر یقینی ہو گا کیونکہ اپنی بعد میں آنے والی تصانیف میں مارکس پرودھان کے بارے میں متنفرانہ اور تمسخرانہ انداز اختیار کرتا ہے اور یہی وہ تصانیف ہیں جنہیں سماجی جمہوریت نے بار بار چھپائی در چھپائی کے لیے منتخب کیا ہے۔

اس طرح بتدریج یہ عقیدہ قائم ہوتا گیا کہ مارکس ابتداء ہی سے پرودھان کا نظریاتی مخالف تھا اور ان کے درمیان کبھی کوئی مشترک اقدار نہ تھیں اور سچ بیان کرنے کے لیے اس کے خلاف یقین کرنا نا ممکن ہے جب آدمی دیکھتا ہے کہ اول الذکر نے اپنے مشہور کام اشتراکی منشور میں فلسفہ کی غربت میں یا پرودھان کی موت کچھ یہ دیر بعد سوزیل ڈی مو کریٹ برلن میں شائع ہونے ذکر رحلت میں پرودھان کے بارے میں لکھا۔ فلسفہ کی غربت میں مارکس پرودھان پر غیر اخلاقی گھٹیا پن اور کسی طور پر پیچھے نہ ہٹتے دکھاتا ہے کہ پرودھان کے نظریات بے قدر ہیں اور یہ کہ وہ نہ ہی سماجیت پسند اور نہ ہی سیاسی معیشت کے نقاد ہیں۔

"مسٹر پرودھان کو"، وہ بیان کرتا ہے، "خاص طور پر یورپ میں سمجھنے میں بدقسمتی رہی۔ فرانس میں اسے ایک برا ماہر معاشیات سمجھے جانے کا حق ہے کیونکہ اس کی پہچان بطور ایک ماہر جرمن فلسفہ دان ہے۔ جرمنی میں اسے برا فلسفہ دان سمجھے جانے کا حق ہے کیونکہ اسے ایک انتہائی قابل فرانسیسی ماہر معاشیات کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔" ایک ہی وقت میں دونوں چیزیں یعنی جرمن ہونا اور ماہر معاشیات ہونا ، ہم اس دوہری غلطی پر احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔

اور حتیٰ کہ مارکس اس سے بھی زیادہ آگے چلا جاتا ہے، وہ پرودھان پر بغیر کسی حوالہ جاتی ثبوت کے انگلش ماہر معاشیات برے کے نظریات چوری کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ اس نے لکھا:

"برے کی کتاب میں ہمیں یقین ہے کہ ہم نے مہاشی پرودھان کے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ادبی کاموں کی چابی تلاش کر لی ہے۔" یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ مارکس جو خود اکثر دوسروں کے تصورات کو استعمال کرتا ہے اور جس کا اشتراکی منشور درحقیقت وکٹر کنسیڈرنٹ کے جمہوری منشور کی نقل ہے اور خود دوسروں کام کی چوری کا الزام عائد کر رہا ہے۔

لیکن ہم اس بات کو دبا دیتے ہیں۔ اشتراکی منشور میں مارکس پرودھان کی بطور قدامت پسند اور بورژوائی کردار عکاسی کرتا ہے اور سوزیل ڈی موکریٹ (1865) میں اس کے ذکر رحلت میں ہمیں درج ذیل پڑھنے کو ملتا ہے:

"سیاسی معاشیات کی سخت سائنسی تاریخ میں یہ کتاب(جس کا نام ملکیت کیا ہے؟) بمشکل ہی کسی ذکر کی مستحق ہو گی۔ اس طرح کے سنسنی خیز کاموں کی سائنس میں وہی وقعت ہے جو حقیقی زندگی میں ناولوں کی"۔ اور اس ذکر تعزیت میں مارکس پرودھان کی بطور ماہر معاشیات و سماجیات بے وقعتی کے دعویٰ کو دوہراتا ہے جو کہ اسی رائے کی بازگشت ہے جو اس نے فلسفہ کی غربت میں دی۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ جو الزامات مارکس نے پرودھان پر لگائے وہ صرف یہ عقیدہ نہ پھیلا سکے اور نہ ثبوت دے سکے کہ اس کے اور عظیم فرانسیسی لکھاری کے درمیان کوئی اقدار کسی بھی طور پر مشترک نہیں ہیں۔ پرودھان جرمنی میں تقریباً غیر معروف ہے۔ اس کے کام کے جو ایڈیشن 1840ء کے اریب قریب جرمنی سے نکالے گئے ان کی چھپائی نہیں ہوئی اور اس کی واحد کتاب جو جرمنی میں دوبارہ چھاپی گئی وہ "ملکیت کیا ہے؟" تھی۔ اور اس کی تقسیم کو بھی محدود رکھا گیا۔ اسی وجہ سے مارکس کو موقع ملا کہ وہ بطور ماہر معاشیات اپنے ابتدائی ارتقاء کے تمام نشانات کو مٹا سکے۔ ہم پہلے ہی اوپر دیکھ چکے ہیں کہ ابتداء میں کس طرح مارکس کا پرودھان کے بارے میں رویہ کس قدر مختلف تھا اور نتائج اخذ ہوں گے وہ ہمارے دعوؤں کی تائید کریں گے۔

جرمن جمہوریت کے ایک مقبول جریدے

رینشے زیٹنگ کے مدریر اعلیٰ کے طورRheinsche Zieting

پر مشہور ترین فرانسیسی سماجی لکھاریوں کے بارے میں آگاہی دی اگرچہ ابھی اس نے خود سماجیاتی مقصد اختیار نہیں کیا تھا۔ ہم پہلے بھی ایک قول کا ذکر کر چکے ہیں جس میں اس نے وکٹر کنسیڈرنٹ ، پیری لیروکس اور پرودھان کو حوالہ دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کنسیڈرنٹ اور پرودھان وہ ماہرین تھے جنہوں نے اسے سماجیات کی طرف لبھایا۔ بلاشبہ "ملکیت کیا ہے؟" مارکس کے بطور ماہر سماجیات ارتقاء میں بڑی موثر تھی۔ اس طرح دوری ذکر میں وہ متاثرکن پرودھان کو تمام سماجی لکھاریوں سے زیادہ دانا اور مستقل مزاج کہتا ہے۔

مارکس اور اینگل کے سچے ادبی وصی فرینز مہرنگ نے جرمن سماجیت پسند جماعت کی طرف جانے میں مستعدی دکھائی تھی۔ اس نے دی ہوئی فیملی اور بطور سرگرم سمایت پسند ان کے ابتدائی سالوں کی دوسری تصانیف کو شائع کیا۔ لیکن اس نے یہ ملنے کے ساٹھ سال بعد ایسا کیا اور ایک اور بات تھی کہ اس کی اشاعت کا مقصد ماہرین کے لیے تھا کیونکہ محنت کشوں کے لیے ان کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ پرودھان جرمنی میں بہت کم معروف تھالیکن محض بہت کم لوگ جان گئے تھے کہ پرودھان کے بارے میں مارکس کی پہلی رائے اور اس کی بعد میں آنے والی رائے میں بہت بڑا فرق تھا۔

اور پھر بھی یہ کتاب مارکس کے سماجیت پسندانہ ارتقاء کو اور اس ارتقاء پر پرودھان کے قوی اثر بیان کو بیان کرتی ہے۔ دی ہوئی فیملی میں مارکس پرودھان کی ان تمام خوبیوں کو تسلیم کرتا ہے جو بعد میں مارکس کے حامیوں نے اپنے رہنما سے منسوب سے کیں۔ آئیں دیکھیں کہ اس سلسلے میں صفحہ نمبر 36 پر وہ کیا کہتا ہے:

"سیاسی معاشیات کے تمام معاہدے نجی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ گھٹیا بنیاد ایک بلا مقابلہ حقیقت ہے جس کے حق میں وہ کوئی مزید تحقیق نہیں لاتے۔ درحقیقت اس بارے میں بیان کی جانے والی واحد حقیقت  غیر ماہرانہ طور پر مانتا ہے۔ لیکن say"ایکسیڈیلمنٹ" جنس

پرودھان پہلی مضبوط، سنگدلانہ، تنقیدی تفتیش لاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اس کی سیاسی معیشت، نجی ملکیت کے بارے میں سائنسی تحقیق بھی ہے۔

1843ء میں پرشیائی سنسر نے رنشے زیٹنگ جریدے کو بند کردیا۔ مارکس نے  ملک چھوڑ دیا اور یہ دوہ دور تھا جب وہ سماجیت پسندی کی طرف مائل ہوا۔ اس تبدیلی کا قابل توجہ اظہار اس کے مشہور لکھاری آرنلڈ برگ کو لکھے گئے خطور اور حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ اس کے اپنے کام مقدس خاندان، تنقیدی تنقید کا ایک نقاد

(The Holy Family, of a Critique of Critical Critics)

میں ہوتا ہے جسے اس نے فریڈرک اینگل کے ساتھ مشترکہ طور پر شائع کیا۔ یہ کتاب 1845ء میں منظر عام پر آئی جس کا مقصد جرمن دانشور برونوبار کے زیرسایہ پنپنے والے رحجان کے خلاف دلائل دینا تھا۔ فلسفیانہ معاملات کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں سیاسی معاشیات اور سماجیت پسندی پر بحث کی گئی اور خاص طور پر یہ کتاب کے وہی حصے ہیں جوہمارے لیے یہاں باعث دلچسپی ہیں۔

مارکس اور اینگل کے تمام کاموں میں واحد کام س کا دوسری زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوا دی ہوئی فیملی ہے اور اسے جرمن سماجیت پسندوں نے دوبارہ نہیں چھاپا۔

یہ وہ عظیم سائنسی ترقی ہے جو وہ لے کر آیا۔ یہ وہ ترقی ہے جسے انقلابی ممکنہ طور پر سیاسی معاشیات کو حقیقی پہلی سائنس لیتے تھے۔ سیز کے کام "تیسری اسٹیٹ کیا ہے؟" کے مطابق پرودھان کا کام "ملکیت کیا ہے؟" جدید سیاسی معشیت اور جدید سیاست کے لیے اہم ہے۔

ان الفاظ کا موازنہ جو کچھ مارکس نے عظیم ناحکومتی نظریہ دان کے بارے میں اور بعد میں کہے تھے بہت دلچسپ ہے۔ دی ہوئی فیملی میں وہ کہتا ہے کہ "ملکیت کیا ہے؟" نجی ملکیت کا پہلا سائنسی تجزیہ ہے اور اس نے قومی معیشت میں سے حقیقی سائنس بنانے کے لیے امکان کا راستہ کھول دیا۔ لیکن سوزیل ڈی موکریٹ میں دیئے گئے اس کے لیے لکھے گئے ذکر رحلت میں یہ الزام دیتا ہے کہ معیشت کی سخت سائنسی تاریخ میں اس کام کے ذکر کی بمشکل ہی کوئی گنجائش ہو گی۔

اس قسم کے تضادات کے پیچھے کیا ہے؟ یہ وہ بات ہے جو ابھی نام نہات سائنسی سماجیات کے نمائندوں نے ابھی تک واضح کرنی ہے۔ حقیقی معنوں میں اس کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ مارکس اس ذریعے کو جس میں وہ غوطہ زن ہوا اسے چھپانا چاہتا تھا۔ تمام لوگ جنہوں نے اس سوال کا مطالعہ کیا اور انہوں نے جانبدارانہ وفاداریوں کے اثر کو غالب نہیں آنے دیا انہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ وضاحت خوبصورت نہیں ہے۔ لیکن ہمیں سننا چاہیے کہ مارکس پرودھان کی تاریخی اہمیت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اسی کام کے صفحہ نمبر 32 پر ہم پڑھ سکتے ہیں:

"نہ صرف پرودھان پرولتاری کے حق میں لکھتا ہے بلکہ وہ خود ایک پرولتاری ہے ۔۔۔ اس کا کام فرانسیسی پرولتاریت کا سائنسی منشور ہے۔"

یہاں پر جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے مارکس خاص طور پر بیان کرتا ہے پرودھان پرولتاری سماجیت پر یقین رکھتا اور اسے فروغ دیتا ہے اور اس کا کام فرانسیسی پرولتاریت سے سائنسی منشور کو پیش کرتا ہے۔ اس کے برعکس اشتراکی منشور میں وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ پرودھان قدامت پسندی اور بورژوائی سماجیات کا دیوتا ہے۔ کیا ا سسے بھی زیادہ تضاد ہو سکتا ہےَ ہم کسے مانیں؟ مقدس خاندان مارکس کو یا اشتراکی منشور کی مصنف کو؟ اور یہ تضاد کیسے آیا؟ یہ وہ سوال ہے جو اپنے آپ سے دوبارہ پوچھتے ہیں اور فطری طور پر اس کا جواب وہی ہے جو پہلے تھا۔ پرودھان ہر کسی سے وہ چیز چھپانا چاہتا تھا جس کے لیے وہ پرودھان کا ممنون تھا اور اس کے خاتمے کے لیے کوئی بھی ذریعہ اسے قابل قبول تھا۔ اس کے سوا کوئی ممکنہ وضاحت نہیں ہو سکتی۔ باکونین کے ساتھ مقابلے میں مارکس نے بعد میں جو ذرائع استعمال کیے وہ اس بات کی گواہی ہیں کہ وہ اپنے انتخاب کے بارے میں بہت زیادہ آگاہی نہیں رکھتا تھا۔

انتظامیہ کے مقاصد اور خیر سگالی کےدرمیان تضاد ایک طرف اور اس کے امکانات و ذرائع دوسری طرف کو ریاست ترک نہیں کر سکتی تاوقتیکہ موخر الذکر اپنے آپ کو ختم کر لیں کیونکہ اس کی بنیاد انہی تضادیر پر ہے۔ ریاست کی بنیاد عوامی اور نجی زندگی کے تضاد، عمومی مفادات اور نجی مفادات کے تضاد پر ہے۔ اس طرح ریاست کو اپنے آپ کو ایک رسمی اور منفی سرگرمی تک محدود کرنا پڑتا ہے کہ جہاں ان کی مشقت شروع ہوتی ہے وہاں ریاست کی طاقت ختم ہوتی ہے درحقیقت ان نتائج جو عوامی زندگی کی غیر سماجی فطرت، اس نجی ملکیت، اس تجارت، اس صنعت اور مختلف حلقوں کے شہریوں کی باہمی لوٹ مار سے جنم لیتے ہیں ان کے لیے انتظامیہ کا فطری قانون نامزدگی ہے۔ اس تقسیم، اس کمینگی، اور سول معاشرے کی غلامی وہ فطری بنیادیں ہیں جن پر جدید ریاست کی عمارت استوار ہے۔ عین اسی طرح جس طرح سول معاشرے کی غلامی قدیم معاشرتی ریاست کی فطری بنیاد تھی۔ ریاست کے وجود اور قدیم غلامی کے وجود ناقابل تقسیم ہیں۔ قدیم ریاست اور قدیم غلامی جیسے سادہ روایتی مخالفین ایک دوسرے کی اس سے زیادہ توجہ حاصل کرتے تھے جس طرح آج کی جدید ریاست اور جدید معاشی دنیا سے منافقانہ مسیحی مخالفین کو حاصل ہے۔

ریاست کی فطرت کی یہ ضروری انتشاری تشریح جو مارکس کی بعد میں آنے والی تعلیمات کے تناظر میں عجیب نظر آتی ہے یہ ابتدائی سماجی ارتقاء میں ناحکومیت کی جڑوں کا واضح ثبوت ہے۔ پرودھان کا ریاست کی تنقید کے تصور کے بارے میں مضمون ایک ایسی تنقید ہے جو اس نے اپنی مشہور کتاب "ملکیت کیا ہے؟" میں قائم کی۔ اس لافانی کس جرمن اشتراکیت پسند کے ارتقاء میں فیصلہ کن اثر تھا۔ اس حقیقت کے باوجود وہ ہر غیر اخلاقی طریقے سے اس سماجی سرگرمی کو رد کرنے کی ہر طرح سے کوشش کرتا ہے۔ یقیناً اس میں مارکس کے حامی اپنے آقاؤں کو مدد کرتے ہیں اور اس طرح غلط تاریخی نقطہ نظر سے مارکس اور پرودھان کے درمیان ایک بتدریج ایک ابتدائی تعلق قائم کیا جات ہے۔

خاص طور پر جرمنی میں جہاں پرودھان تقریباً غیر معروف ہے۔ ایسی مکمل غلط بیانیاں اس سلسلے میں پھیلائی جاتی ہیں۔ آدمی جس قدر پرانے سماجی لکھاریوں کے کاموں کا زیادہ مطالعہ کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ نام نہاد سائنسی سماجیات تخیلاتیوں کی کس قدر ممنون تھی جنہیں بہت پہلے مارکس حامیوں کی زبردست شہرت اور دوسرے عوامل کی جنہوں نے سماجیاتی ادب کو انتہائی ابتدائی دور میں نکال دینے کی وجہ سے انہیں بھلا دیا گیا۔

مارکس کے انتہائی اہم اساتذہ میں سے ایک جس نے اس کی بعد میں آنے والی ارتقاء کی بنیاد رکھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ پرودھان تھا جسے قانون پرست سماجیوں نے غلط سمجھا اور اس پر ناحکومیت پسند ہونے کا الزام لگایا۔

مارکس کی اس دور کی سیاسی تصانیف مثال کے طور پر مضمون جو

Vorwearts of Paris

میں شائع ہوا دکھاتے ہیں کو مارکس پرودھان کی سوچ اور حتیٰ کے اس کے ناحکومیت کےنظریات سے کس قدر متاثر تھا۔

ایک دوری جریدہ تھا جو فرانسیسی دارلحکومت Vorwearts

میں ہنرک برنسٹین کی ہدایت پر سال 1844ء کے دوران شائع ہوتا تھا۔ ابتدائی طور پر بظاہر ایک محض ایک آزاد خیال A nales German o Francaisesجریدہ تھا۔ لیکن بعد میں

کے غائب ہونے پر برنسٹین نے پرانے شراکت داروں سے رابطہ کیا اور انہوں نے اسے سماجیاتی مقصد کے لیے استعمال پر راضی کیا۔ اس کے بعد سے یہ سماجیاتی نظام اور روگی کی آخری اشاعتوں تک بہت سارے شراکت داروں کی آواز بن گیا۔ باکونین، ہنرک ہینی، جارج ہروے وغیرہ نے اس جریدے میں اپنے مضامین بھیجے۔

اشاعت نمبر 63 (7 اگست 1844) نے مارکس کے ایک مناظراتی کام مضمون پرشیا کا بادشاہ اور سماجی اصلاحات پر تنقیدی نوٹ شائع کیا۔ اس میں اس نے ریاست کی فطرت کا مطالعہ کیا اور معاشی بدحالی اور غربت کے خاتمے میں اس کی سراسر نا اہلی کو بیان کیا۔ مصنف نے اس مضمون میں جو نظریات پیش کیے ہیں وہ مکمل طور پر ناحکومیت پر مبنی اور اس سلسلے میں پرودھان، باکونین اور ان جیسے دوسرے نظریہ دانوں کے قائم کیے گئے نظریات سے مکمل مماثلت رکھتے ہیں۔ مارکس کے مطالعے سے ماخوذ درج ذیل اقتباس پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں:

ریاست کبھی نہ دیکھے گی، ریاست اور معاشرتی نظام میں سماجی بیماریوں کے ماخذ کو۔ جہاں سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں پر پارٹی ہر برائی کی جڑ کو حقیقت میں دیکھنے کی بجائے اسے ریاست کے پتوار میں کھڑی مخالف جماعت میں دیکھتی ہے، حتیٰ کہ بنیادی اور انقلابی سیاستدان برائی کی جڑ کو ریاست کی ضروری فطرت میں نہیں دیکھتے بلکہ ریاست کی ایک مخصوص شکل میں دیکھتے ہیں جسے وہ ایک اور شکل کے ساتھ بدلنا چاہتے ہیں۔

سیاسی نقطہ نگاہ سے ریاست اور معاشرتی نظام دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ ریاست معاشرتی نظام ہے۔ جہاں تک ریاست سماجی خامیوں کے وجود پر نظر رکھتی ہے، یہ اس کی وجوہات کو یا تو قوانین فطرت میں دیکھتی ہے جنہیں کوئی انسانی طاقت حکم نہیں دے سکتی، یا نجی زندگی میں و ریاست پر انحصار نہیں کرتی۔ اس طرح انگلینڈ غربت کی وجہ کو قانون فطرت میں دیکھتا ہے کہ جس کے مطابق آبادی کے پاس قیام کے لیے وسائل کی بہتات ہونی چاہیے۔

انگلینڈ بھرتی کو غریبوں کی بدنیتی سے تعبیر کرتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح پرشیا کا بادشاہ اسے امیروں کی غیر مسیحی جذبات اور کنونشن اسے جائیداد مالکان کی مشکوک انقلاب مخالفانہ ذہنیتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے انگلینڈ غریبوں کو سزا دیتا ہے، پرشیا کا بادشاہ امیروں کی سرزنش کرتا ہےاور کنونشن جائیداد مالکان کے سر تن سے جدا کر دیتا ہے۔

آخر کار ہر ریاست اس کی وجہ انتظامیہ کی حادثانہ یا دانستہ غلطیوں میں تلاش کرتی ہے اور اس لیے اس کا علاج ریاست کی تدابیر میں تلاش کرتی ہے۔ کیوں؟ مختصراً اس لیے کہ اتنظامیہ ریاست کی اتنظامی سرگرمی ہے۔

20 جولائی 1870ء کو کارل مارکس نے فریڈرک اینگل کو لکھا " فرانس کو ایک پٹائی کی ضرورت ہے۔ اگر پرشیائی فتح یاب ہوتے ہیں تو ریاستی طاقت کی مرکزیت، جرمن محنت کش طبقہ کی مرکزیت میں مددگار ہو گی۔ مزید برآں جرمن برتری مغربی یورپی تحریکوں کے مرکز کشش کو فرانس سے جرمنی منتقل کر دے گی اور آدمی کو اس تحریک کو 1866ء سے آج تک موازنہ کرنا چاہیے یہ دیکھنے کے لیے کہ جرمن محنت کش طبقہ نظریہ اور تنظیم میں فرانسیسی طبقہ سے برتر ہے۔ دنیا کے سٹیج پر اس کا فرانس پر غلبے کا مطلب وہی ہو گا جس طرح ہمارے نظریے کا پرودھان وغیرہ کے نظریات پر۔

مارکس درست تھا۔ فرانس پر جرمنی کی فتح، یورپی مزدور تحریک کے لیے ایک نیا تاریخی باب تھی۔ لاطینی ممالک کی انقلابی اور آزاد خیال سماجیت پسندی کو پس پشت ڈال دیا گیا اور سٹیج کو مارکس کے ریاستانہ اور ناحکومیت کے نظریات کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ زندہ دلانہ اور تخلیقی سماجیت پسندی کے ارتقاء کو ایک نئی آہنی تنگ نظر عقیدے جو کہ سماجی حقیقت کے مکمل علم کا دعویدار تھا جبکہ وہ محض بمشکل ہی دینوی لفاظی کا آمیزہ تھا، مہلک دھوکا تھا اور یہ حقیقی سماجیاتی سوچ کی قبر بن گیا تھا اس نے روک لیا۔

خیالات کے ساتھ ساتھ سماجیاتی تحریکوں کے طریقے بھی تبدیل ہو گئے۔ پروپیگنڈے کے لیے گروہوں اور معاشی تگ و دو کے لیے تنظیم جس میں بین الاقوام نے مستقبل کے معاشرے کا بیج اور جواہر جو کہ پیداوار اور تبادلے کے لیے سماجیاتی ذرائع کے لیے موزوں تھے کی بجائے سماجی جماعتوں اور پرولتاریت کے نمائندہ پارلیمانی نظام کا دور آ گیا۔ آہستہ آہستہ پرانی سماجیاتی تعلیم جو محنت کشوں کی زمینوں اور ورکشاپوں کو فتح کرنے کی طرف رہنمائی کر رہی تھی اسے بھلا دیا گیا اور اسے ایک نئے جماعتی عزم کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا جس کا اعلیٰ ترین آئیڈیل سیاسی طاقت پر فتح کا حصول بن گیا۔

مارکس کے بڑے مخالف مائیکل باکونین نے واضح طور پر حالت میں تبدیلی دیکھی اور بھاری دل کے ساتھ پیشگوئی کی کہ جرمنی کی فتح اور اشتراک کے زوال سے یورپ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ جسمانی طور پر نقاہت کا شکار اور موت کو  جھانکتےدیکھ کر اس  Cgarevنے 11 نومبر 1874 کو

کے لیے یہ اہم لائنیں لکھیں:

بسا مارکسزم جو کہ فوجی ، پولیسی تسلط اور معاشی اجارہ داری نئی ریاست کے نام پر ایک نظام میں امتزاج ہے جو ہر جگہ فتح یاب ہے لیکن نسل انسانی کے غیر مستحکم ارتقاء کے غالباً دس ہا سال میں فتح کے راستوں پر ایک مرتبہ پھر روشنی ڈلی جائے گی۔

اس موقع پر باکونین غلط تھا۔ وہ یہ حساب لگانے میں رہا کہ بسمارکزم کو دنیا کے شدید خوفناک واقعات کے درمیان الٹنے میں نصف صدی لگ جائے گی۔

جیسا کہ 1871ء میں جرمنی کی فتح اور اشتراک پیرس کی ناکامی اولڈ انٹرنیشل کے غائب ہونے کے اشارے تھے، اس لیے 1914ء کی جنگ عظیم سے سیاسی سماجیات کے دیوالیہ پن کا اظہار ہوا۔

اور پھر کچھ عجیب اور بعض دفعہ حقیقتاً بدنما چہرہ وقوع پذیر ہوا جس کو صرف قدیم سماجیاتی تحریک سے مکمل جہالت کی صورت میں تشریح کی جا سکتی ہے۔

یقیناً لینن کا کام آسان نہ تھا۔ ایک طرف اسے ناحکومیت پسندوں کے ریاست مخالف رحجانات کا جراتمندانہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا گیا جبکہ دوسری طرف اسے یہ دکھانا تھا کہ اس کا رویہ کسی بھی انتشاری کا نہ تھا بلکہ خالصتاً مارکس کے نظریات کے مطابق تھا۔ اس کے ناگریز نتیجے کے طور پر اس کا کام ایک صحتمندانہ انسانی سوچ کی تمام تر منطق کے خلاف غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک مثال ایسا ظاہر کرے گی کہ دینے کی خواہش میں جہاں تک ممکن ہو سکے مارکس میں ایک متوقع ریاست مخالف رحجان ہے۔ مارکس، لینن فرانس میں خانہ جنگی کتاب کے مشہور اقتباس کو نقل کرتا ہے جہاں مارکس اشتراکیت کو طفیلی ریاست کی جڑیں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کرتا ہے۔ لیکن لینن اس بات کو یاد کر کے پریشان نہیں ہے کہ ایسا کہنے سے مارکس کھل کر اپنی پہلی کی گئی باتوں کی مخالفت میں آ گیا اور مجبور ہو گیا تھا کہ باکونین کے حامیوں جن کے ساتھ وہ بہت تلخ تگ و دو میں نبرد آزما رہا ان کے سامنے اعتراف پر مجبور ہو گیا تھا۔

حتیٰ کہ فرینز مہرنگ جس پر سماجیت پسندوں کے ساتھ ہمدردی کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا مجبور ہو گیا تھا کہ اپنی آخری کتاب "کارل مارکس" میں تسلیم کرے جہاں وہ کہتا ہے "تاہم اس کام میں جس قدر تفصیلی صداقتیں کیوں نہ ہوں، یہ بات سوالات سے بالاتر ہے کہ اس میں جو سوچ شامل ہے وہ اس سوچ سے متضاد تھی جس ے مارکس اور اینگل اشتراکی منشور میں چوتھائی صدی قبل دعویٰ کر رہے تھے۔"

باکونین اس وقت درست تھا جب اس نے کہا  "مسلح بغاوت میں ایک اشتراکی کی تصویر اس قدر طاقتور تھی کہ مارکس پسندوں جن کے نظریات نے پیرس کو مکمل طور پر پریشان کر دیا تھا ان کو بھی اشتراکیوں کے عمل سے پہلے جھکنا پڑا۔ وہ اس سے آگے چلے گئے۔ تمام منطق اور معلوم سزا یابی کی دھمکی کی وجہ سے انہیں اپنے آپ کو اشتراکیت کی پہچان، اس کے اصولوں اور تمناؤں سے خود کو منسوب کرنا پڑا۔ یہ مزاحیہ لیکن ضروری خوشی کا کھیل تھا کیوں کہ انقلابیوں نے ایک ایسا جوش و خروش بیدار کر دیا تھا کہ اگر وہ ہاتھی دانت کے مقدس مینار میں پناہ لیتے ہوئے بھی پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کرتے تو ان کو مسترد کر دیا جاتا۔

لینن کچھ اور بھی بھول گیا، کوئی ایسی چیز جو اس معاملے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ یہ ہے کہ مختصراً مارکس اور اینگل ہی تھے جنہوں نے قدیم بین الاقوامی تنظیموں کو پارلیمانی سرگرمی کی طرف مجبور کرنے کی کوشش کی اور اس طرح بورژوائی پارلیمان میں سماجیت پسند مزدور تحریک کو مکمل طور پر دلدل میں دھکیلنے کی براہ راست ذمہ دار بن گئے۔ دی انٹرنیشنل ہر ملک کے منظم کام کرنے والے مزدوروں کو ایک بڑے اتحاد میں اکٹھا کرنے کی پہلی کوشش تھی اور اس کا حتمی مقصد مزدوروں کی معاشی آزادی تھا۔ مختلف حصوں کے ساتھ جن کی سوچ اور حکمت عملی مختلف تھی، یہ ضروری تھا کہ ان کے مل کر کام کرنے اور مختلف حصوں کی آزاد اور خودمختار طاقت کو تسلی کرنے کے لیے شرائط بنائی جائیں۔ جب ایسا کیا گیا تو دی انٹرنیشنل کو ہر ملک میں فروغ اور طاقت حاصل ہو گئی۔ لیکن اس سب نے مارکس اور اینگل ک ی مختلف قومی اکائیوں کو پارلیمانی سرگرمی کی طرف دبانے کی تحریک کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ ایسا قابل مذمت لندن کانفرنس 1871ء میں پہلی بار ہوا تھا، جہاں پر ان کی قرارداد جس کا خاتمہ درج ذیل شرائط پر ہوا منظوری مل گئی۔

یہ فرض کرتے ہوئے کہ محنت کش طبقہ، دوسری مالکانہ جماعتوں کی مجموعی طاقت کے خلاف ایک جماعت کے طور پر عمل نہیں کر سکتی، سوائے اس کے کہ وہ اپنی ایک سیاسی جماعت تشکیل دیں جو دوسری پرانی مالکانہ جماعتوں کی مخالف اور ان سے مختلف شکل کی ہو۔یہ کہ سماجی انقلاب کے لیے محنت کش طبقے کا ایک سیاسی جماعت تشکیل دینا ناگریز ہے اور اس کا حتمی مقصد طبقات کا خاتمہ، طاقتوں کا امتزاج جنہوں نے محنت کشوں کو اپنی جدوجہد کے ذریعے متاثر کیا ہے انہیں اس کے ساتھ ساتھ زمیندار نوابوں اور سرمایہ داروں ے خلاف جدوجہد میں لیور کا کام کرنا چاہیے۔ دی کانفرنس اپنے اراکین کو یاد دلاتی ہے کہ محنت کش طبقہ کی فوجی حالت اس کی معاشی تحریک اور سیاسی عمل کو ناقابل طور پر متحد  کر دیتی ہے۔

کافی ممکن تھا کہ انٹرنیشل میں ایک واحد جزو یا وفاقی اکائی کو ایک ایسی قرارداد اختیار کرنی چاہیے کہ اس کے ارکان پر فرض ہو کہ وہ اس پر عمل کریں۔ ایگزیکٹو کونسل اپنے گروپ ممبر پر اسے لاگو کریں، خاص طور پر ایسا معاملہ تھا جو جنرل کانگریس کو پیش نہیں کیا گیا تھا، ایک ایسا ستمگرانہ عمل تھا جو انٹرنیشنل کی روح کے صاف منافی تھا اور ضروری طور پر انفرادی اور انقلابی عناصر اس کے خلاف پرجوش احتجاج لاتے۔

میں 1872ء میں شرمناک کانگریس نے The Hauge

مزدوروں کی تاج پوشی کی جس پر مارکس اور اینگل نے آمادہ ہوتے ہوئے دی انٹرنیشنل کو ایک انتخابی مشین میں تبدیل کرتے ہوئے ایک شق کو شامل کیا جس کے مختلف حصوں کو سیاسی طاقت کے خاتمے پر لڑنے پر ممنون کیا۔

اس طرح مارکس اور اینگل مزدور تحریک کے نقصان دہ نتائج کے لیے دی انٹرنیشنل کو توڑنے کے قصوروار تھے اور وہی تھے جو سیاسی ایکشن کے ذریعے سماجیت پسندی کے ٹھہراؤ اور زوال کا سبب بنے۔

جب 1873ء میں سپین میں انقلاب آیا، دی انٹرنیشنل کے تقریبا تمام اراکین جو کہ انتشار پسند تھے انہوں نے بورژوائی جماعتوں کی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا اور انہوں نے مالکان کو زمینوں سے محروم کرنے، پیداوار کے ذرائع اور سماجی انقلاب کی روح میں اپنا طریقہ اختیار کیا۔ الکوئے سین لوسر ڈی بارا میڈا سیولی کارٹاگینا اور ہر جگہ جہاں عوامی ہڑتالیں اور بغاوتیں شروع ہوئیں وہاں خون بہا کر انہیں دبانا پڑا تھا۔ کارتھییگنا کی بندرگاہ انقلابیوں کے ہاتھوں میں رہتے ہوئے کافی دیر مزاحمت کرتی رہی تاوقتیکہ اس نے پرشیا اور انگلش جنگی جہازوں کی گولہ باری کے آگے سر تسلیم خم کر  میںVolksstaal دیا۔ اس وقت اینگل کے حامیوں نے

سپینی باکونین حامیوں پر سخت حملہ کرتے ہوئے انہیں اگر اینگل زیادہ عرصہ زندہ رہا ہوتا تو اس کے اپنے جرمنی اور روسی اشتراکیت پسند شاگردوں پر کیسی تنقید کرنی تھی۔

1891ء میں کانگریس کے جشن کے بعد جب "نوجوان" کو "موقع پرستوں" اور کاٹسکیسٹوں پر وہی الزام جو لینن نے لگائے تھے عائد کرنے کی وجہ سے جرمن سماجی جمہوری جماعت سے نکال دیا گیا تو علیٰحدہ جماعت جس کا برلن میں اپنا  تھاکی بنیاد رکھی۔ ابتدائی طور پر یہ ایک Der Sozialistاخبار

کٹر جماعت تھی اور اس کی سوچ آج کی اشتراکیت پسند جماعت کی سوچ سے ملتی جلتی تھی۔ مثال کے طور پر اگر آدمی ٹسلر کی کتاب پارلیمانی نظام اور کام کرنے والا طبقہ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے وہی خیالات ملتے ہیں جو لینن کی کتاب ریاست اور انقلاب میں ہیں۔ روسی بالشیوکوں اور جرمن اشتراکیت پسند جماعت کے دوسرے اراکین کی طرح اس وقت کے آزاد سماجیت پسندوں نے جمہوریت کے اصولوں کو مسترد کر دیا اور مارکس کے اصلاحاتی اصولوں کی بنیاد پر بورژوائی پارلیمان کا کوئی بھی حصہ بننے سے انکار کر دیا۔

اینگل ان "نوجوانوں" جنہوں نے اشتراکیت پسندوں کی طرح مارکس کے نظریات کو دھوکہ دینے والے سماجی جمہوری جماعت کے رہنماؤں پر الزام لگانے میں خوشی محسوس کی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ سورجی کو 1891ء میں لکھے گئے ایک خط میں عمررسیدہ اینگل درج ذیل مہربانہ کلمات استعمال کرتا ہے:

قابل نفرت برلن کے رہائشی جنہیں الزام عائد کرنے والا ہونا چاہیے تھا اس کی بجائے وہ ملزم بن گئے اور انہوں نے ایسے بدحال بزدلوں جنہیں جماعت چھوڑتے اور کام سے رکنے پر مجبور کر دیا گیا ہو کی طرح عمل کیا۔ بلاشبہ ان کے درمیان ایسی پولیس کی جگہیں اور خفیہ انتشار پسند ہیں جو ہمارے لوگوں کے درمیان کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ اور بہت سے فارم ہاؤسز والے، دھوکہ باز طالبعلم اور قسما قسم  کے گستاخ لٹیرے ہیں۔ کل ملا کر کوئی دو سو لوگ ہیں۔ یہ جاننا ایک دلچسپ بات ہوتی کہ اینگل آج کہ اشتراکیت پسندوں جو مارکس کے نظریاتی اصولوں کے دعویدار ہیں کو کون سے مشتاقانہ اعزازات سے نوازتا۔

قدیم سماجی جمہوریت کے طریقوں کی درجہ بندی کرنا ناممکن ہے۔ ان کے بارے میں لینن کے پاس کہنے کو ایک لفظ بھی نہیں اور اس کے جرمن دوستوں کے پاس اس سے بھی کم ہے۔ سماجیت پسندوں کی اکثریت کو یہ بیانیہ تفصیل کہ وہ مارکس کے نظریات کے اصل نمائندے ہیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص ان کے ساتھ اتفاق کرے گا۔ یہ مارکس کے نظریات ہی تھے جنہوں نے کام کرنے والے طبقے پر پارلیمانی عمل کا اطلاق عائد کرایا اور جرمن سماجی جمہوری جماعت کے لیے راستہ متعین کیا۔ صرف جب یہ سمجھ میں آجائے گا تو آدمی کو احساس ہو گا کہ سماجی آزادی کا راستہ ہمیں مارکس کے نظریات کی مخالفت کے باوجود ہمیں ناحکومیت کی خوشگوار سرزمین پر لے جاتا ہے۔