Patriotism: A Menace to Liberty by Emma Goldman

Patriotism: A Menace to Liberty by Emma Goldman

حب الوطنی کیا ہے؟ کیا یہ اپنی جائے پیدائش، بچپن کی یادوں، امیدوں، خوابوں اور تمناؤں کے ٹھکانے سے محبت ہے؟
کیا یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بچپنے کی معصومیت کیساتھ تیرتے بادلوں کو دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ہم اتنی تیز رفتاری سے کیوں بھاگ نہیں سکتے؟
وہ جگہ جہاں کھربوں چمکتے ستارے گنتے ہیں، خوف و دہشت کیساتھ کہ مبادا ہر ایک آنکھ جیسا نہ ہو، ہماری معصوم روحوں کی گہرائیوں تک کھب جاتے ہیں؟
کیا یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ہم پرندوں کی موسیقی سنتے ہیں، اڑنے کیلئے پروں کی خواہش کرتے ہیں، ان کی طرح، دور دراز مقامات کی جانب؟
ایسی جگہ جہاں ہم اپنی ماں کے گھٹنوں پر بیٹھتے ہیں، عظیم کارناموں اور فتوحات کی حیرت انگیز داستانوں کی شادمانی کیساتھ؟
المختصر، کیا یہ اس مقام سے محبت ہے، جہاں کا ہر ذرہ مسرت آمیز، پرلطف اور شوخ بچپن کی یادوں سے معمور ہوتا ہے؟
اگر یہ حب الوطنی ہوتی تو امریکہ کے بہت ہی کم لوگ محب الوطن کہلائے جا سکتے، کیونکہ کھیلنے کی جگہ فیکٹری، مل اور کان میں بدل چکی ہے، جہاں بہرا کر دینے والی مشینوں کی آوازیں پرندوں کی موسیقی کی جگہ لے چکی ہیں، نہ ہی ہم عظیم کارناموں کی کہانیاں سن سکتے ہیں، وہ کہانیاں جو آج کل مائیں ہمیں سناتی ہیں، وہ کرب، آنسوؤں اور دکھوں کی ہوتی ہیں۔
پھر آخر کو حب الوطنی کیا ہے؟ ڈاکٹر جانسن نے کہا تھا ”حب الوطنی، جناب، بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے“۔ لیو ٹالسٹائی، ہمارے عہد کا عظیم ترین حب الوطنی مخالف، حب الوطنی کی تعریف ایسے اصول کے طور پر کرتا ہے جو تھوک کے حساب سے قاتلوں کی تربیت کو جواز بخشتی ہے، ایسی تجارت جسے ضروریات زندگی کی پیداوار جیسا کہ جوتے، لباس اور مکان کی بجائے قتل عام کی مشق کیلئے بہتر آلات درکار ہوتے ہیں، ایسی تجارت جو اوسط محنت کش سے زیادہ بہتر منافع اور عظمت کی ضمانت دیتی ہے۔
گسٹاو ہرو، ایک اور حب الوطنی مخالف، منصفانہ طور پر حب الوطنی کو توواہمہ کہتا ہے، جو مذہب سے کہیں زیادہ ضرر رساں، ظالمانہ اور انسانیت سوز ہے۔ مذہب کی توہم پرستی انسان کی فطری مظاہر کی وضاحت کی عدم صلاحیت سے جنم لیتی ہے۔ جیسا کہ قدیم انسان بادلوں کی گرج یا بجلی کی کڑک دیکھتا تو وہ ان کی وضاحت نہ کر پاتا جس کی وجہ سے اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پیچھے لازماً ایک قوت ہو گی جو اس سے عظیم ہے۔ ایسے ہی بارش میں اس نے مافوق الفطرت قوت متصور کی اور ایسا ہی بیشمار دیگر فطرت میں بدلاؤ کی صورتوں میں ہوا۔ دوسری طرف حب الوطنی ایسا واہمہ ہے جسے مصنوعی طور پر تخلیق اور برقرار رکھا جاتا ہے، دروغ اور کذب کے جال کے ذریعے، ایسا واہمہ جو انسان کو عزت نفس اور وقار سے محروم کر دیتا ہے اور اسکی نخوت اور زعمِ باطل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
بلاشبہ خود فریبی، تکبر اور خود پسندی حب الوطنی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ وضاحت کا موقع دیجئے۔
حب الوطنی فرض کرتی ہے کہ ہمارا کرۂ ارض چھوٹے مقامات میں بٹا ہے، ہر ایک فولادی پھاٹک میں گھرے ہوئے ہے۔ جنہیں ایک خطہ میں پیدا ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے، وہ اپنے آپ کو بہتر، عالی نسب، عظیم تر اور زیادہ ذہین تصور کرتے ہیں ان لوگوں سے جو دوسرے خطوں میں رہتے ہیں۔ اس سبب سے اس ترجیحی خطے پر بسنے والے تمام لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی برتری تمام دوسروں پر مسلط کرنے کیلئے لڑیں، ماریں اور مریں۔
دوسرے خطوں پر بسنے والے بھی انہی خطوط پر استدلال کرتے ہیں، جو بلا شک و شبہ اس امر پر منتج ہوتا ہے کہ ابتدائی بچپن سے ہی بچے کا ذہن جرمنوں، فرانسیسیوں، اطالویوں، روسیوں وغیرہ کے بارے میں خونریز داستانوں سے زہر آلود کر دیا جاتا ہے۔ جب بچہ جوانی کی سرحدی عبور کرتا ہے تو اس یقین سے لبریز ہوتا ہے کہ اسے خدا نے خود غیر ملکی حملے یا چڑھائی کیخلاف وطن کے دفاع کیلئے منتخب کیا ہے۔ اسی مقصد کیلئے ہم ایک عظیم آرمی اور نیوی، مزید جنگی جہازوں اور اسلحہ کیلئے ہنگامہ کر رہے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ نے مختصر مدت میں چار سو ملین ڈالر خرچ کر دیے ہیں۔ ایک لحظہ کیلئے سوچیے، چار سو ملین ڈالر عوام کی پیداوار سے لیے گئے۔ یقیناً امراء حب الوطنی میں حصہ نہیں ڈالتے۔ وہ جہاندیدہ ہوتے ہیں، ہر خطے میں گھر جیسے پرسکون ہوتے ہیں۔ ہم یہاں امریکہ میں اس کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ کیا ہمارے امریکی سرمایہ دار فرانس میں فرانسیسی، جرمنی میں جرمن، برطانیہ میں برطانوی نہیں ہیں؟ کیا وہ جہاندیدہ نزاکت کیساتھ امریکی فیکٹری کے بچوں اور کپاس کے کھیتوں کے مزارعوں کی پیدا کردہ دولت نہیں اڑاتے؟ یقیناً، ان کی حب الوطنی تو زار روس جیسے جابر آمروں کیلئے تعزیتی پیغامات بھیجنا بھی ممکن بناتی ہے، جب کبھی اس پر کوئی آفت آ جائے، جب Sergius کو روسی انقلابیوں کی جانب سے سزا دی گئی۔

یہ حب الوطنی ہے جو قاتلِ اعظم دیاز کی میکسیکو میں ہزاروں زندگیاں برباد کرنے میں مدد دیتی ہے، یا حتیٰ کہ میکسیکو کے انقلابیوں کی امریکی سرزمین پر پکڑ دھکڑ اور امریکہ جیلوں میں بغیر کسی معمولی سی وجہ یا سبب کے مقید رکھنے میں مدد بھی فراہم کر دے گی۔ حب الوطنی لیکن پھر بھی ان کے لئے نہیں ہے جو طاقت اور دولت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ محض عوام کیلئے کافی ہے۔ یہ امر والٹئیر کے جگری دوست فریڈرک اعظم کی تاریخی دانش کی یاد دلاتا ہے جس نے کہا تھا ”مذہب ایک فراڈ ہے لیکن اسے عوام کیلئے لازماً قائم و دائم رکھنا چاہیے“۔
حب الوطنی تاہم ایک مہنگا ادارہ ہے، درج ذیل اعداد و شمار پڑھنے کے بعد کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔ دنیا کی بڑی فوجوں اور بحریہ میں گذشتہ ربع صدی سے مسلسل اضافہ ایسی ٹھوس حقیقت ہے جو معاشی مسائل کے ہر فکرمند طالبعلم کو چونکا دے۔ مختصر طور پر اسے 1881 سے 1905 تک پانچ ادوار کی مدت میں تقسیم کر کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور دنیا کی متعدد عظیم قوموں کے آرمی اور نیوی مقاصد کیلئے اخراجات کی نشاندہی سے۔ ان پہلے اور آخری ادوار میں برطانیہ عظمیٰ نے اخراجات میں $2,101,848,936 سے $4,143,226,885، فرانس میں $3,324,500,000 سے $3,455,109,900، جرمنی میں $725,000,200 سے $2,700,375,600، امریکہ میں $1,275,500,750 سے $2,650,900,450، روس میں $1,900,975,500 سے $5,250,445,100، اٹلی میں سے $1,600,975,750 تک اور جاپان میں $182,900,500 سے $700,925,475 تک اضافہ ہوا۔ مذکورہ بالا تمام قوموں کے دفاعی اخراجات میں زیر بحث ہر پانچ سال کے عرصہ میں اضافہ ہوا۔ 1881 سے 1905 تک کے تمام عرصہ میں برطانیہ عظمیٰ میں اس کی آرمی کیلئے اخراجات میں چار گنا اضافہ ہوا، امریکہ میں تین گنا، روس میں دوگنا، جرمنی میں 35 فیصد، فرانس میں 51 فیصد، اور جاپان میں تقریباً پانچ سو فیصد اضافہ ہوا۔ اگر ہم ان تمام قوموں کے آرمی پر اخراجات کا موازنہ 1905 تک پچیس سال کے عرصے کے تمام اخراجات سے کریں تو تناسب کچھ یوں سامنے آتا ہے: برطانیہ عظمیٰ میں 20 فیصد سے 37، امریکہ میں پندرہ سے تئیس، فرانس میں سولہ سے اٹھارہ، اٹلی میں بارہ سے پندرہ، جاپان میں بارہ سے چودہ فیصد، دوسری طرف اس امر کا اندازہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ جرمنی میں 58 فیصد سے 25 فیصد تک کمی ہوئی، یہ کمی دیگر مقاصد کیلئے سامراجی اخراجات میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ہوئی۔
درحقیقت آرمی اخراجات عرصہ 1901 تا 1905 پچھلے تمام پانچ سالوں کے دورانیے سے زیادہ تھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جن ملکوں میں آرمی اخراجات تمام قومی اثاثوں کے تناسب سے بہت زیادہ ہیں، وہ برطانیہ عظمیٰ، ریاست متحدہ، جاپان، فرانس اور اٹلی ہیں۔
عظیم نیوی فوجوں کے اخراجات پر نظر ڈالنا بھی مساوی مؤثر ہے۔ 1905 تک ختم ہونے والے پچیس برسوں میں نیوی اخراجات میں اضافہ درج ذیل ہے: برطانیہ عظمیٰ 300 فیصد، فرانس 60 فیصد، جرمنی 600 فیصد، ریاست متحدہ 525 فیصد، روس 300 فیصد، اٹلی 250 فیصد اور چاپان 700 فیصد۔ برطانیہ عظمیٰ کے استثنا کے ساتھ، ریاست متحدہ نے کسی بھی قوم سے زیادہ نیوی مقاصد پر خرچ کیا اور ان اخراجات میں مکمل قومی اخراجات کا ایک کثیر تناسب بھی شامل ہے جو کسی بھی دوسری قوت سے زیادہ ہے۔ 1881–5 کے عرصہ میں امریکی نیوی کے اخراجات تمام قومی مقاصد کیلئے مختص سو ڈالر میں سے $6.20، اگلے پانچ برس کے دورانیے میں رقم $6.60 تک پہنچ گئی، اگلے دورانیے میں $8.10، اس سے اگلے دورانیے میں $11.70 اور 1901–5 میں $16.40 تک پہنچ گئی۔ یقیناً حالیہ پانچ سال کے عرصہ میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
عسکریت کی بڑھتی قیمت کی مزید وضاحت شاید آبادی پر فی کس ٹیکس میں اضافے کیساتھ موازنے سے کی جا سکتی ہے۔ پہلے اور آخری پانچ سالہ دورانیے کو اگر موازنے کی بنیاد رکھا جائے تو اضافے درج ذیل ہوئے: برطانیہ عظمیٰ $18.47 سے $52.50، فرانس $19.66 سے $23.62، جرمنی $10.17 سے $15.51، ریاست متحدہ $5.62 سے $13.64، روس $6.14 سے $8.37، اٹلی $9.59 سے $11.24 اور جاپان میں 86 پیسے سے $3.11۔
عسکریت کا معاشی بوجھ فی کس قیمت کے سرسری اندازے میں ہی نہایت عمدہ لگتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے ناقابل تعرض نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ آرمی اور نیوی اخراجات میں اضافہ حالیہ شماریات کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی تیزی سے پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ بالفاظ دیگر عسکریت کی بڑھتی ہوئی طلب میں تسلسل ہر ایک قوم کیلئے انسانوں اور وسائل دونوں کے صفایا کا خطرہ پیش کرتا ہے۔

وہ اندوہناک ضیاع جسے حب الوطنی لازم کرتی ہے، اوسط ذہانت کے لوگوں کو زہر آلود کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ حب الوطنی بدستور اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ لوگوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ محب الوطن بنیں، نہ صرف اس عیاشی کیلئے جس کی وہ قیمت ادا کرتے ہیں، نہ صرف اپنے ‘مجاہدین’ کی حمایت کر کے، بلکہ یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کی قربانی دے کر بنیں۔ حب الوطنی پرچم کی تابعداری مانگتی ہے، جس کا مطلب ہے اطاعت اور ماں، باپ، بھائی کو قتل کرنے پر تیار رہنا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمیں ایک تیار فوج کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی جارحیت سے ملک کا دفاع کیا جائے۔ ہر ذی شعور مرد اور عورت جانتا ہے کہ یہ واہمہ احمقوں کو خوفزدہ اور مرعوب رکھنے کیلئے قائم رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے مفادات سے آگاہ دنیا بھر کی حکومتیں ایک دوسرے پر جارحیت میں نہیں الجھتیں۔ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ عالمی جھگڑوں پر ثالثی کے ذریعے جنگ اور فتوحات سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
یقیناً، جیسا کہ کارلائل نے کہا، ”جنگ دو ڈکیتوں کے درمیان ایسا جھگڑا ہے جو اپنی جنگ لڑنے میں انتہائی بزدل ہیں، اس لئے وہ کبھی ایک گاؤں اور کبھی دوسرے گاؤں سے نوجوان لیتے ہیں، انہیں یونیفارم چپکاتے ہیں، بندوقوں سے مسلح کرتے ہیں اور انہیں جنگلی درندوں کی طرح ایک دوسرے پر چھوڑ دیتے ہیں۔“
اس امر کا اندازہ لگانے کیلئے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر جنگ کے پس پردہ ایک جیسا مقصد نکلتا ہے۔ بالفرض ہسپانوی-امریکی جنگ کو لیتے ہیں جو عظیم اور محب الوطن جنگ امریکہ کی تاریخ میں تصور کی جاتی ہے۔ ہمارے دل ہسپانیوں کی نفرت سے کیسے بھرے ہوئے تھے، درست، مگر ہمارے اشتعال کے پیچھے مہینوں کی اخبارات کی مشتعل تحریک تھی اور یہ ویلر قصائی کے معزز کیوبنز کے قتل اور کیوبن خواتین کو نفرت دلانے سے کہیں پہلے ہو رہا تھا۔ امریکی قوم سے انصاف کرتے ہوئے کہا جائے تو بھلے اس امر نے اسے اشتعال دلایا اور وہ لڑنے کیلئے تیار تھی اور یہ کہ اس نے بہادری سے جنگ لڑی۔ لیکن جب دھواں چھٹ گیا، مردے دفنا دیے گئے اور جنگ کی قیمت اشیا کی قیمتوں اور کرایوں میں اضافے کی صورت عوام کے پاس لوٹ کر آئی اور ہم حب الوطنی سے لبریز ہو گئے تو اچانک ہم پر کھلا کہ ہسپانوی امریکی جنگ کا مقصد چینی کی قیمت پر غور تھا اور مزید وضاحت سے کام لیا جائے تو امریکی عوام کی جانیں، لہو اور روپیہ امریکی سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال ہوا جنہیں ہسپانوی حکومت سے خطرہ تھا۔ یہ مبالغہ آمیزی نہیں ہے بلکہ ٹھوس حقائق اور اعداد و شمار سے ثابت ہے اور امریکی حکومت کے کیوبن محنت کشوں سے سلوک سے زیادہ بہتر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جب کیوبا امریکہ کے آہنی پنجے میں تھا، وہی فوجی جو کیوبا کی آزادی کیلئے بھیجے گئے انہیں سگار سازوں کی عظیم ہڑتال میں کیوبن محنت کشوں پر گولی چلانے کا حکم ہوا تھا، جو جنگ کے فوری بعد ہوا۔
ہم اس قسم کے مقاصد کیلئے جنگیں چھیڑنے کی حمایت نہیں کرتے۔
روسی جاپانوی جنگ کے محرکات سے بھی پردہ اٹھ رہا ہے جس کی قیمت بے تحاشا خون اور آنسوؤں کی صورت چکائی جا رہی ہے۔ اور ہم دوبارہ دیکھتے ہیں کہ کٹر جنگ کے مولک (قدیم کنعانی دیوتا جس پر بچے قربان کیے جاتے تھے) کی پشت پر کہیں زیادہ مضبوط کمرشلزم کا خدا کھڑا ہے۔ روسی وزیر جنگ کروپاٹکن نے روسی جاپانی جنگ میں مؤخر الذکر کے اصل راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ زار اور اس کے بڑے امراء نے کورین مراعات میں پیسہ لگا رکھا تھا اور جنگ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کیلئے مسلط کر دی گئی۔
یہ دلیل کہ تیار آرمی اور نیوی امن کی بہترین ضمانت ہیں، اتنی ہی منطقی ہے جتنا یہ دعویٰ کہ امن پسند شہری وہ ہے جو بے انتہا مسلح ہو۔ روز مرہ کے تجربات مکمل طور پر ثابت کرتے ہیں کہ مسلح فرد اپنی قوت آزمانے کیلئے بے چین رہتا ہے۔ تاریخی طور پر حکومتوں کیلئے بھی یہی درست ٹھہرتا ہے۔ حقیقی پرامن ممالک زندگی اور توانائی جنگوں کی تیاریوں میں ضائع نہیں کرتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امن قائم رہتا ہے۔
تاہم بھاری فوج اور نیوی کا شور و غل کسی بیرونی حملے کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ایسا عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور محنت کشوں کے درمیان عالمی جذبے کے خطرے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ اندرونی دشمن کا سامنا کرنے کیلئے ہو رہا ہے جس کے لئے مختلف ممالک کی طاقتیں خود کو تیار کر رہی ہیں، ایسا دشمن جس کے شعور کو ایک بار بیداری کی طرف لایا جائے، کسی بھی بیرونی جارح سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔
وہ قوتیں جو صدیوں سے عوام کو غلام بنانے کے عمل میں ملوث ہیں، انہوں نے ان کی نفسیات کا مکمل مطالعہ کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام بچوں کیطرح ہیں جنکی مایوسی، دکھ اور آنسو ننھے کھلونوں سے خوشی میں بدلے جا سکتے ہیں اور کھلونے کو جتنا خوشنما سجایا جائے گا، رنگ جتنے جاذب ہوں گے، اتنا ہی لاکھوں سروں والے بچے کو متاثر کرے گا۔

آرمی اور نیوی عوام کے کھلونوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں مزید پرکشش اور قابل قبول بنانے کیلئے ہزاروں لاکھوں ڈالر ان کھلونوں کی نمائش پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ امریکی حکومت کے ایک بیڑے کو سجانے اور اسے بحر اوقیانوس میں بھیجنے کا یہی مقصد تھا کہ ہر امریکی شہری میں تفاخر اور عظمت کا احساس بھر دیا جائے۔
شہرِ سان فرانسیسکو نے اس بیڑے پر ایک لاکھ ڈالر خرچ کیے، لاس اینجلس نے ساٹھ ہزار ڈالر، سیٹل اور ٹیکوما نے قریب ایک لاکھ ڈالر لگائے۔ کیا میں نے کہا بیڑے کی خاطر مدارت؟ یعنی چند بڑے افسران کی شراب اور طعام کی فراہمی، جبکہ ‘بہادر جوانوں’ کو گزارے کے لائق خوراک حاصل کرنے کیلئے بھی بغاوت کرنی پڑی۔ جی ہاں، دو لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر آتش بازی، تھیٹر پارٹیوں اور عیاشی پر اڑائے گئے، اس وقت جب مرد، عورتیں اور بچے ملک کے طول و عرض میں گلیوں میں بھوکے مر رہے تھے، جب ہزاروں بیروزگار کسی بھی قیمت پر اپنی محنت کی فروخت کیلئے تیار تھے۔
دو لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر! اتنی بڑی رقم سے کیا کچھ مکمل نہیں کیا جا سکتا تھا؟ لیکن روٹی اور چھت کی بجائے ان شہروں کے بچے بیڑے کو دیکھنے کیلئے لے جائے گئے، تاکہ جیسا کہ ایک اخبار نے سرخی جمائی ‘بچے کی دیرپا یادداشت’ کے طور پر باقی رہے۔ یاد رکھنے کی ایک شاندار چیز، کیا ایسا نہیں ہے؟ مہذب قتل عام کے اوزار۔ اگر بچے کا ذہن اس قسم کی یادداشتوں سے زہر آلود کر دیا جاتا ہے تو انسانی اخوت کے حقیقی ادراک کی کیا امید رہ جاتی ہے؟
ہم امریکی امن پسند لوگ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم قتل عام سے نفرت کرتے ہیں، ہم تشدد کے مخالف ہیں۔ باوجودیکہ ہمیں اڑنے والی مشینوں سے ڈائنامائٹ بم پھینکنے کے امکان پر خوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ ہم لٹکانے، برقی رو سے جان لینے اور مارنے کیلئے تیار رہتے ہیں، ہر اس شخص کو جو معاشی احتیاج کے سبب کسی بڑے سرمایہ دار کیخلاف اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر کوئی اقدام اٹھائے۔ باوجودیکہ ہمارے دل اس سوچ پر تفاخر سے پھول جاتے ہیں کہ امریکہ کرۂ ارض پر طاقتور ترین قوم بن رہا ہے اور یہ بالآخر اپنے آہنی قدم تمام دوسری قوموں کی گردن پر گاڑھ دے گا۔ حب الوطنی کی منطق یہی ہے۔
شر انگیز نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حب الوطنی عام آدمی کیلئے اجیرن ہے، یہ اس ہتک اور آزار کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے جو حب الوطنی سپاہی پر بذات خود لاد دیتی ہے، جہالت اور واہمے کا ایک غریب اور فریب خوردہ شکار۔ وہ جو ملک کا نجات دہندہ، قوم کا محافظ۔۔ حب الوطنی میں اس کے لئے کیا پڑا ہے؟ امن کے دوران غلامانہ اطاعت گزاری، عیب زدہ اور مسخ شدہ زندگی اور جنگ میں خطرے، نمائش اور موت والی زندگی۔
میں نے سان فرانسیسکو میں حالیہ لیکچر ٹور میں پریسیڈیو کی سیر کی، جو خلیج اور گولڈن گیٹ پارک کے سامنے انتہائی خوبصورت مقام ہے۔ اس کا مقصد بچوں کے کھیلنے کے میدان، اکتائے ہوئے لوگوں کی تفریح کیلئے باغات اور موسیقی ہونا چاہیے تھا۔ اسکے برعکس اسے بیرکوں سے بدنما، ناکارہ اور خاکی بنا دیا گیا ہے، بیرکیں بھی ایسی جہاں امرا اپنے کتوں کو رہنے کیلئے بھی نہ بھیجیں۔
ان قابل رحم کٹیا نما جھونپڑیوں میں سپاہی جانوروں کے ریوڑ کیطرح رکھے جاتے ہیں۔ یہاں وہ اپنی بھرپور جوانی کے دن ضائع کرتے ہیں، افسران بالا کے بوٹ اور پیتل کے بٹن چمکاتے ہوئے۔ یہاں بھی طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ آزاد جمہوریہ کے گھبرو سپوت، مجرموں کیطرح لائن میں لگے ہوتے ہیں اور لیفٹیننٹ کے ہر گزرتے کیکڑے کو سیلیوٹ کرتے ہیں۔ امریکی مساوات انسانیت کی تذلیل اور وردی کا درجہ بلند کرتی ہے۔
بیرکوں کی زندگی جنسی بے راہ روی کے رجحانات کے فروغ کا مزید میلان کرتی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ یورپی ملٹری کی حالتوں سے یکساں خطوط پر نتائج پیدا کرتی جا رہی ہے۔ جنسی نفسیات کے معروف مصنف ہیولاک ایلس نے اس موضوع پر مفصل تحقیق کی ہے۔ وہ لکھتا ہے ”بعض بیرکیں مردانہ جسم فروشی کے بڑے مراکز ہیں۔۔ ان سپاہیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا ہم ماننے کو تیار ہیں جو اپنا جسم فروخت کرتے ہیں۔ بلامبالغہ بعض رجمنٹوں میں احتمال اکثریت کی علت کے حق میں ہے۔ گرمیوں کی شاموں میں ہائیڈ پارک اور البرٹ گیٹ کا گرد و پیش فوجیوں اور دیگر سے بھرا ہوتا ہے جو سرگرم دھندہ کرتے ہیں اور معمولی بھیس بدلنے کیساتھ، یونیفارم میں یا یونیفارم کے بغیر۔۔ زیادہ تر یہ آمدن کسی ٹامی کے جیب خرچ میں خاطر خواہ اضافےکی سبیل کرتی ہے۔

اس بے راہ روی نے آرمی اور نیوی کو کس حد تک لپیٹ لیا ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس شکل کی جسم فروشی کیلئے خاص مکانات وجود رکھتے ہیں۔ یہ عمل صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے، یہ آفاقی ہے۔ ”سپاہیوں کی تلاش فرانس یا جرمنی میں برطانیہ سے کم نہیں ہے اور پیرس اور گیریژن علاقوں دونوں میں عسکری جسم فروشی کے مخصوص مقامات وجود رکھتے ہیں“۔ اگر جناب ہیولاک نے ایلیس نے امریکہ کو جنسی بے راہ روی پر اپنی تحقیق میں شامل کیا ہوتا تو ہم دیکھتے کہ بعینہ یہی حالات ہماری آرمی اور نیوی میں پائے جاتے ہیں جیسی ان دوسرے ممالک میں ہیں۔ تیار فوج میں اضافہ لا محالہ جنسی بے راہ روی کے پھیلاؤ میں اضافہ کرتا ہے، بیرکیں انکیوبیٹر ہیں۔
بیرکوں کی زندگی میں جنسی بے راہ روی سے ہٹ کر یہ سپاہی کو آرمی چھوڑنے کے بعد کسی مفید کام سے معذور کر دیتی ہیں۔ تجارت کا ماہر انسان شاذ ہی آرمی میں جاتا ہے اور اگر چلا جائے تو فوج میں جانے کے تجربے کے بعد اپنے پرانے پیشوں کیلئے خود کو مکمل غیر مؤثر پاتا ہے۔ بیکاری کے مشاغل اور جوش اور مہم جوئی کا ذائقہ چکھنے کے بعد کوئی بھی پرامن جستجو انہیں خوش نہیں رکھ سکتی۔ آرمی سے فراغت کے بعد وہ کسی مفید محنت کشی کیطرف لوٹ نہیں سکتے۔ لیکن عموماً یہ سماجی غلاظت ہے، رہا شدہ قیدی اور ان جیسے، جنہیں گزر بسر کیلئے جدوجہد یا ذاتی لگاؤ ان درجوں میں لاتا ہے۔ یہ لوگ جنکی فوجی مدت ختم ہوتی ہے، اپنی پرانی مجرمانہ زندگی کیطرف لوٹ جاتے ہیں، پہلے سے زیادہ سفاک اور گرے ہوئے۔ یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ ہماری قیدخانوں میں ایک بڑی تعداد سابق فوجیوں کی ہے، جبکہ دوسری طرف آرمی اور نیوی سابق مجرموں سے کثیر حد تک بھری پڑی ہیں۔
ان تمام نتائج میں سے جو میں نے بیان کیے ہیں، انسانی وقار کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی مجھے ضرر رساں نہیں لگتا جیسا ماحول ولیم بوولڈا کے معاملے میں حب الوطنی نے پیدا کیا۔ چونکہ وہ احمقانہ حد تک اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ایک شخص بیک وقت فوجی اور بطور انسان اپنے حقوق کا استعمال کر سکتا ہے، فوجی حکام نے اسے شدید سزا دی۔ درست ہے کہ اس نے اپنے ملک کیلئے پندرہ سال خدمات سرانجام دیں، اس دورانیے میں اس کا ریکارڈ بے داغ رہا۔ جنرل فنسٹن کے مطابق، جس نے بوولڈا کی سزا تین سال تک گھٹا دی ہے، ”ایک آفیسر یا بھرتی شدہ کا پہلا فرض ہوتا ہے کسی حجت کے بغیر اطاعت گزاری اور حکومت سے وفاداری، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ حکومت سے اتفاق کرتا ہے یا نہیں“۔ یوں فنسٹن وفاداری کے اصل کردار پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔ اسکے مطابق آرمی میں داخل ہونا اعلان آزادی کے اصولوں کو منسوخ کر دیتا ہے۔ حب الوطنی کا کیسا عجیب اظہار ہے جو باشعور لوگوں کو وفادار مشین میں بدل دیتا ہے۔
بوولنڈا کی انتہائی نامعقول سزا پر جنرل فنسٹن امریکی عوام کو بتاتا ہے کہ فوجی جوان کا اقدام ‘غداری کے مترادف انتہائی سنجیدہ نوعیت کا جرم’ ہے۔ اب یہ ‘خوفناک جرم‘ درحقیقت کیا ہے؟ فقط اتنا کہ ولیم بوولڈا ان پندرہ سو لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے سین فرانسیسکو میں ایک پبلک میٹنگ میں شرکت کی اور اوہ، انتہائی خوفناک یہ کہ اس نے مقرر ایما گولڈمین سے ہاتھ ملایا تھا۔ یقیناً ایک بھیانک جرم، جسے جنرل کہتا ہے ‘ایک بہت بڑا عسکری جرم، بھگوڑے ہو جانے سے لامحدود طور پر بدترین جرم’۔
کیا حب الوطنی کیخلاف اس سے بڑی فرد جرم ہو سکتی ہے کہ یہ ایک شخص کو مجرم گرداننے لگے، جیل میں ڈال دے اور پندرہ سال کی ایماندارانہ خدمات کے اجر سے محروم کر دے؟
بوولڈا نے اپنے ملک کو اپنی زندگی کے بہترین سال اور انتہائی جوانمردی دی لیکن جیسے یہ سب کچھ بھی نہ ہو۔ حب الوطنی بے رحم ہے اور تمام حریص عفریتوں کیطرح سب کچھ مانگتی ہے یا پھر کچھ بھی نہیں۔ یہ تسلیم نہیں کرتی کہ فوجی بھی ایک انسان ہوتا ہے جسے اپنے احساسات اور خیالات، اسکے اپنے نظریات اور میلانات کا حق ہے۔ نہیں، حب الوطنی اسے قبول نہیں کر سکتی۔ یہ وہ سبق ہے جو بوولڈا کو سکھایا گیا، بھلے ایک مہنگی قیمت پر، لیکن وہ قیمت بھی بے فائدہ نہیں ہے۔ جب وہ آزادی کیطرف لوٹا تو آرمی میں اپنا رتبہ کھو چکا تھا لیکن اس نے عزت نفس دوبارہ حاصل کر لی۔ آخر کو تین سال کی قید کی یہ قیمت ہے۔

امریکی فوجی حالات پر ایک مصنف نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں فوجیوں کی سویلینز پر جرمنی میں طاقت پر تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ دیگر تمام امور میں ہماری جمہوریہ کا تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کے علاوہ کوئی معنی نہیں بنتا، یہی وجود کا منصفانہ مقصد ہو گا۔ میں اس امر پر قائل ہوں کہ مصنف کولریڈو میں جنرل بیل کے عظیم محب الوطن حاکمیت کے دور میں نہیں تھا۔ وہ اپنا ذہن تبدیل کر لیتا اگر اس نے حب الوطنی اور جمہوریہ کے نام پر وہاں دیکھا ہوتا کہ کیسے لوگ باڑوں میں پھینکے جا رہے تھے، گھسیٹے اور بارڈر کے آر پار لائے جا رہے تھے اور ہر طرح کی ذلت آمیزی کا نشانہ بنائے گئے۔ ریاست متحدہ میں فوجی قوت میں اضافے کا محض کولریڈو کا سانحہ واحد نہیں ہے، شاید ہی کوئی ہڑتال ہو جہاں فوجی دستے اور ملیشیا طاقتور کے تحفظ کیلئے نہ آتی ہو اور جہاں وہ متکبرانہ اور وحشیانہ برتاؤ نہیں کرتی، ویسا ہی جیسے قیصر کی وردی پہنے لوگ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمارے پاس ڈک ملٹری قانون بھی ہے، کیا مصنف اسے بھول گئے؟
ہمارے مصنفین کی ایک بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر مکمل لاعلم ہیں اور دیانت کا فقدان رکھتے ہیں۔ وہ ایسے معاملات پر نہیں بولیں گے۔ اور یوں پھر ڈک ملٹری قانون انتہائی کم بحث اور اس سے بھی کم تشہیر کیساتھ کانگریس کے ذریعے تیزی سے لایا گیا۔ ایسا قانون جو صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پرامن شہری کو خون آشام انسانوں کے قاتل میں بدل دے۔ بظاہر ملک کے دفاع کے نام پر، درحقیقت اس مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے جس کا ماؤتھ پیس صدر ہوتا ہے۔
ہمارا مصنف دعویٰ کرتا ہے کہ عسکریت امریکہ میں کبھی ایسی قوت نہیں بنی جیسا کہ اسکے باہر بن رہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ رضاکارانہ طور پر ہے جبکہ پرانی دنیا میں لازم فریضہ ہے۔ دو اہم حقائق تاہم ایسے ہیں جو موصوف مدنظر رکھنا بھول گئے۔ پہلا یہ کہ جبری بھرتی نے یورپ کے تمام طبقوں میں عسکریت کیخلاف گہری نفرت پیدا کر دی ہے۔ ہزاروں ریکروٹ احتجاج کیساتھ اپنا نام لکھواتے ہیں اور جیسے ہی آرمی میں شامل ہوں، وہ ہر ممکن طریقے سے بھگوڑا ہونے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جو عسکریت کی لازم خصوصیت ہے جس نے زبردست عسکریت مخالف تحریک کو فروغ دیا ہے جس سے یورپی طاقتیں کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔
آخر کو سرمایہ داری کی سب سے بڑی فصیل عسکریت ہے۔ جیسے ہی مؤخر الذکر کمزور پڑتی ہے، سرمایہ داری لڑکھڑانے لگے گی۔ درست ہے کہ ہمارے ہاں جبری بھرتی نہیں، یہ کہ لوگوں کو عام طور پر آرمی میں اندراج کیلئے مجبور نہیں کیا جاتا لیکن ہم نے ایک کہیں زیادہ سخت اور درشت قوت پروان چڑھائی ہے یعنی کہ ضرورت۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ صنعتی بحرانوں کے دور میں اندراج کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے؟ عسکریت کی تجارت بھلے مفید یا قابل عزت نہ ہو، لیکن یہ ملک بھر میں کام کی تلاش میں در بدر پھرنے، روٹی کیلئے قطاروں میں کھڑے ہونے اور میونسپل لاجنگ کے گھروں میں سونے سے تو بہتر ہے۔ آخر کو اس کا مطلب ایک ماہ کے تیرہ ڈالر، ایک دن میں تین وقت کا کھانا اور سونے کیلئے ٹھکانہ ہے۔ تاہم ضرورت آرمی میں کردار اور مردانگی کا مادہ لانے کے عنصر کیلئے ایک کافی قوت نہیں ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ہمارے فوجی ارباب اختیار آرمی اور نیوی کے اندراج میں ‘ناقص مال’ کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ اعتراف ایک حوصلہ افزاء علامت ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ عام امریکی میں بدستور آزادی اور خود اختیاری کی روح کم از کم اتنی باقی ہے کہ وہ وردی پہننے کی بجائے فاقہ کشی کا خطرہ مول لے۔
دنیا بھر کے باشعور مرد و خواتین اس امر کا احساس کرنے لگے ہیں کہ حب الوطنی اتنا تنگ نظر اور محدود تصور ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ طاقت کی مرکزیت نے مظلوم قومیتوں یکجہتی کا عالمی احساس لایا ہے، ایسی یکجہتی جو امریکی محنت کشوں اور انکے بیرونی بھائیوں کے درمیان امریکی کان کن اور اسکے استحصالی ہم وطن سے کہیں زیادہ مفادات کی ہم آہنگی کا اظہار کرتی ہے، ایسی یکجہتی جو بیرونی جارحیت سے خوف نہیں کھاتی کیونکہ یہ محنت کشوں کو ایک ایسے نکتے پر لاتی ہے جہاں وہ اپنے آقاؤں سے کہہ اٹھتے ہیں ‘جاؤ اور اپنی قتل و غارت خود کرو، ہم نے تمہارے لئے بہت کر لیا’۔
یہ یکجہتی فوجیوں کا شعور بھی بیدار کر رہی ہے، وہ بھی تو عظیم انسانی خاندان کے گوشت پوست کا لوتھڑا ہوتے ہیں۔ ایسی یکجہتی جو ماضی کی جدوجہد میں ایک سے زیادہ بار درست ٹھہر چکی ہے اور جو 1871 کے پیرس کمیون میں پروشیا کے فوجیوں کو مائل کرنے کا محرک رہی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر گولی چلانے کے احکامات سے انکار کر دیں۔ اس نے ان لوگوں کو حوصلہ دیا جنہوں نے حالیہ برسوں میں روسی جنگی بحری جہازوں پر بغاوت کی، آخرکار یہ استحصال زدہ اور مظلوموں کا عالمی استحصالیوں کیخلاف ابھار لائے گی۔

یورپ کے محنت کشوں نے جڑت کی عظیم قوت کا ادراک کر لیا ہے اور نتیجتاً حب الوطنی اور اسکے خونی آسیب عسکریت کیخلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ ہزاروں لوگوں نے فرانس، جرمنی، روس اور سیکنڈے نیوین ممالک میں جیلیں بھر دی ہیں کیونکہ انہوں نے قدیم توہم پرستی کو للکارنے کی جرأت دکھائی ہے۔ نہ صرف یہ کہ تحریک محنت کشوں تک محدود نہیں، اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے نمائندے منسلک کر لیے ہیں۔ اسکے مرکزی ترجمان آرٹ، سائنس اور ادب سے مرد و خواتین بن گئے ہیں۔
امریکہ کو اسکی پیروی کرنا ہو گی۔ عسکریت کی روح پہلے ہی تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرایت کر رہی ہے۔ یقیناً میں اس امر کی قائل ہوں کہ عسکریت یہاں کسی بھی دوسری جگہ سے زیادہ عظیم خطرے کو پروان چڑھا رہی ہے، ان بیشمار رشوتوں کیوجہ سے جو سرمایہ دارانہ نظام گرفت میں رکھتا ہے، ان لوگوں کیلئے جنہیں وہ تباہ کرنا چاہتا ہے۔
آغاز پہلے سے سکولوں میں کیا جا چکا ہے۔ واضح طور پر ریاست فریبی تصور پر گرفت رکھتی ہے ‘مجھے بچے کا دماغ دو اور میں آدمیوں کے دماغ ڈھال دوں گا’۔ بچوں کو عسکری حربوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ نوجوان ذہن حکومت کی روش پر چلانے کیلئے مسخ کیے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ ملک کے نوجوان آرمی اور نیوی میں شمولیت کے چکا چوند پوسٹرز کے ذریعے راغب کیے جاتے ہیں۔ حکومتی تشہیر باز چلاتا ہے ‘دنیا گھومنے کا ایک بہترین موقع!’۔ یوں معصوم نوجوان اخلاق کی چالبازی سے حب الوطنی کیطرف لائے جاتے ہیں اور عسکری مولک دیوتا قوم میں فاتحانہ اکڑتا پھرتا ہے۔
امریکی محنت کش فوجیوں، ریاست اور وفاق کے ہاتھوں اتنی ذلت سہہ چکا ہے کہ وہ باوردی جونکوں کے متعلق اپنی نفرت اور انکی مخالفت پر خود کو خاصا مطمئن محسوس کرتا ہے۔ تاہم ہلکی پھلکی مذمت اس بڑے مسئلے کو حل نہیں کرے گی۔ ہمیں ضرورت جس امر کی ہے وہ فوجی کی تعلیم کیلئے پراپیگنڈہ ہے، حب الوطنی مخالف لٹریچر جو اسے اس دھندے کی حقیقی دہشت پسندی سے متعلق باشعور کرے اور پھر یہ اسکا ان لوگوں سے حقیقی تعلق پر شعور بیدار کرے گا جنکی محنت کا مرہون منت اسکا اپنا وجود ہے۔ درحقیقت یہی وہ امر ہے جس سے ارباب اختیار بہت خوف کھاتے ہیں۔ ایک فوجی کیلئے ایک ریڈیکل میٹنگ میں شرکت کرنا پہلے سے ہی سنگین غداری کے مترادف ہے۔ بعید نہیں کہ وہ ایک فوجی کیلئے انقلابی پمفلٹ پڑھنا بھی سنگین غداری قرار دے دیں۔ لیکن پھر بھی، کیا ارباب اختیار نے ازل سے ترقی پسندی کے ہر اقدام کو غداری قرار نہیں دیا؟ تاہم جو سماج کی تشکیل نو کیلئے انتھک جدوجہد کرتے ہیں، وہ اس صورتحال کا سامنا کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ شاید بیرکوں میں سچائی لے جانا فیکٹریوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جب ہم نے حب الوطن جھوٹ سے پیچھا چھڑا لیا تو ہم اس عظیم ڈھانچے کیلئے راستہ صاف کر دیں گے جہاں تمام قومیتیں عالمی اخوت کے رشتے میں متحد ہوں۔
ایک حقیقی آزاد معاشرہ (فری سوسائٹی) ایما گولڈمین مترجم: طاہر