عالمی سامراج اور اس کا کردار
جب کوئی سرمایہ دار اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی انتہا کردے اور عوام کا بڑے پیمانے پر استحصال نہ کر پارہا ہو تو وہ پھر ملک سے باہر سرمایہ کاری کرکے، تجارتی معاہدات کرکے خام مال درآمد کرکے اور مصنوعات کو برآمد کرتا ہے، سرمایہ داری کو عالمگیریت کی شکل دیتا ہے تو اسے سامراج اور پھر عالمی سامراج کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ امریکی سامراج، برطانوی سامراج، جرمنی سامراج، جاپانی سامراج دنیا پر چھائے ہوئے تھے، مگر اب ان میں امریکی سامراج سرفہرست رہ گیا ہے تو دوسری جانب چین کی عالمی سرمایہ کاری سامراجیت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس وقت امریکا کے 68 جنگی بحری بیڑے سمندروں میں آپریشنل حالت میں ہیں جب کہ چین کے 12بحری بیڑے آپریشنل حالت میں ہیں۔
بقول پروفیسر نوم چومسکی کہ امریکا اب تک دنیا کے 88 ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کرچکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ اس وقت امریکا کے فوجی اڈے اسرائیل، یورپ، مشرق وسطیٰ (خصوصاً عرب ممالک) کوریا، جاپان اور ڈیگوگارشیا وغیرہ میں موجود ہیں
جہاں لاکھوں امریکی افواج تعینات ہیں جب کہ چین، سری لنکا کا سمندری پورٹ کو ہڑپ کرچکا ہے۔ دنیا کا سب سے قیمتی 90فیصد پتھر برما میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کا تیل اور گیس کا ٹھیکہ چین کے سرمایہ داروں کے پاس ہے۔ دنیا کی چار بڑی تانبے کے کانوں میں سے ایک افغانستان کا ٹھیکہ چینی سرمایہ داروں کے پاس ہے۔ پاکستان میں سونے کی کان کنی کا ٹھیکہ بھی چین کے پاس ہے، جس کا 51فیصد منافع چین لے جاتا ہے۔ بنگلہ دیش، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ (خاص کر ایران) مغربی افریقہ اور لاطینی امریکا میں اپنی تجارتی معدنیات اور راہ داری پر مسلط ہوتا جارہا ہے۔
چین میں اس کی اپنی رئیل اسٹیٹ کمپنی ایورگرینڈگروپ ملک کا دوسرا بڑا پراپرٹی ڈویلپر ہے جو اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اس کے حصص کی قیمت سال کے شروع کے مقابلے میں 76 فیصد گرگئی ہے۔ اگست میں ایورگرینڈ کے بانی اور چین کے سب سے دولت مند اشخاص میں سے ایک ’’شوجیاین‘‘ نے گروپ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ شنگھائی میں کمپنی کے بانڈز کی فروخت معطل ہوچکی ہے۔
پولیس شنزن میں ایورگرینڈ کے دفتر میں اس وقت داخل ہوئی جب کمپنی کی مصنوعات میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد ادائیگی کا مطالبہ کرنے آئے تھے۔2015کے بعد سے چین کے بڑے شہروں میں رہائشی مکانات کی قیمتیں 50فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں پچھلے دس سالوں میں چوٹی کے 10شہروں میں فی رہائش کے حصے میں آنے والے اوسط زمین 230مربع فٹ ہے۔ عین ایک ہوٹل کے کمرے سے تھوڑی زیادہ یا چین میں فی گز اوسط رہائشی زمین کے 60فیصد سے بھی کم۔ یہ بات درست ہے کہ پراپرٹی کے شعبے میں زیادہ تر سٹہ بازی کا مقصد رہائش کے مسئلے کو حل کرانے کی بجائے کاروباری مقاصد حاصل کرنا ہے۔ مجموعی قرضوں کا 28فیصد اسی شعبے میں متعلقہ ہے۔
مقامی حکومتوں کے ذمے 10ٹریلین ڈالر کے قرضے ہیں۔ غیر ملکی انفرادی سرمایہ کاری کے لیے گروی والے بانڈز ہیں جن کی شرح سود بلند ہے (7سے9 فیصد) اب کمپنی اپنے واجبات کو ادا کرنے سے معذوری کا اعلان کررہی ہے۔ ایورگرینڈ اور دیگر پراپرٹی کمپنیوں کے بے تحاشا قرضوں کے اس پھیلاؤ کو چین کی ریگولیٹری اتھارٹی نے پہلے نظر انداز کیا۔ بالکل 2008ء کے پہلے امریکا کی طرح۔ یہ بات سچ ہے کہ حالیہ سالوں میں چین کے قرضے جی ڈی پی کا 317 فیصد ہے۔ درحقیقت باہری دنیا کے چین کے لیے ہوئے قرضے کہیں زیادہ ہے۔ یعنی کل عالمی قرضوں کا 6فیصد۔ چین دنیا کو قرضہ دینے والا بڑا ملک ہے اور اس کے پاس ڈالر اور یورو کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جو اس کے بیرونی ڈالر کے قرضوں سے 50فیصد زیادہ ہے۔
چین کی حکومت قرضوں کو کم کرنا چاہتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا یہ دو صورتوں میں ممکن ہے یا تو پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کرکے بلند شرح نمو لائی جائے یا غیر پیداواری شعبوں میں جیسے پراپرٹی کی سٹہ بازی میں اپنے دیے جانے والے قرضوں کو کم کیا جائے۔
آخر الذکر کا نتیجہ چین کے سرمایہ دارانہ شعبے کی شرح منافع میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔ جس سے اس شعبے میں پیداواری سرمایہ کاری کے امکانات کم ہوں گے۔ چینی پراپرٹی کا بلبلہ پھٹنے سے منافع اور گھریلو آمدنی پر دباؤ آئے گا۔ سرمایہ دارانہ شعبے کی شرح منافع گررہی ہے اور اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ اس کی بیشتر سرگرمیاں غیر پیداواری شعبوں میں مرکوز ہیں۔
dچین میں سرمایہ دارانہ شعبے کا بڑھتا ہوا حجم اور اثر ورسوخ معیشت کی کارکردگی کو متاثر کررہا ہے اور عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ چین میں عدم مساوات کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت طبقاتی خلیج دنیا میں سب سے زیادہ چین میں ہے۔ پیپلز کانگریس (قومی اسمبلی) کے 500ارکان میں سے 200ارب پتی ہیں۔
گزشتہ 15سالوں میں مزدوروں اور کسانوں نے 85ہزار ہڑتالیں کیں جن میں 15فیصد ہڑتالوں کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے۔ سڑکوں کی تعمیرات اور کان کنی کے لیے چین نے جن ملکوں میں ٹھیکہ لیا ہے وہاں اپنے مزدوروں سے کام کرواتا ہے نتیجتاً وہاں کے مقامی مزدور بے روزگار ہورہے ہیں۔ سستی مزدوری کی وجہ سے گارمنٹ کی برآمدات ایشیا میں چین کی زیادہ یعنی 75فیصد ہوگئی ہے جس کے بعد کمبوڈیا، بنگلہ دیش، لاؤس، سری لنکا، تھائی لینڈ، فلپائن، پاکستان اور ہندوستان کے لاکھوں مزدور بے روزگاری کے شکار ہوگئے۔ درحقیقت اندرون پالیسی کا عکس خارجہ پالیسی پر پڑتا ہے اور خارجہ پالیسی کا عکس اندرون ملک پر پڑتا ہے۔ یہی صورت حال چین کی نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے دوران نظر آیا۔ چین کو پاکستان کی کوئی سوشلسٹ جماعتیں نظر نہیں آئیں۔
جب کہ ادھر طالبان کی حکومت کی مذہبی جماعتیں اور چین دونوں حمایت کررہی ہیں جب پیرس کمیون 1871ء میں قائم ہوا تھا تو چرچ کے عملے اور سرمایہ داروں کو اپنی بساط کے مطابق کام کرنے پر لگایا گیا۔ ماؤژلنگ اور ان کی اہلیہ بھی دھان کے کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ جب کہ آج کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما زمین پر پاؤں نہیں رکھتے اور پاکستان کے سیاسی علماء کوئی کام دھندا نہیں کرتے۔ چین میں ڈنگ شیاؤپنگ کے دور میں ماؤژتنگ کی اہلیہ سمیت نام نہاد چار کا ٹولہ کہہ کر ان پر مقدمہ چلایا اور سزا دی۔ سی پیک کے بعد اب تک پاکستان کو سب سے زیادہ تجارتی خسارہ چین سے ہورہا ہے مگر وہ دن دور نہیں جب دنیا میں غیر طبقاتی نظام قائم ہوگا۔
کامریڈ زبیر، ورکرز سولڈرٹی فیڈریشن پاکستان